ایک عالم کا قول ہے کہ اپنے اوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے مگر جن لوگوں میں خود اعتمادی نہیں ہوتی ہے ان کے دلوں میں یقین کی حرارت پیدا نہیں ہوسکتی۔ وہ انسان جو اپنی صلاحیتوںپر یقین رکھتا ہے ناکامی کو آخری اور حتمی ماننے سے انکار کردیتا ہے اور حصول مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہتا ہے اور بالآخر کامیاب رہتا ہے لیکن جس انسان میں خوداعتمادی نہیں ہوتی وہ ہرناکامی کو اپنی تقدیر کا حصہ قرار دے کر پست سے پست تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
خوداعتمادی کا فقدان عملی زندگی میں کس شکل میں نمودار ہوتا ہے؟ اگر آپ اس اہم سوال کا جواب ذہن نشین کرلیں تو آپ کو اپنے کردار کا یہ نقص دور کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ انسان میں خوداعتمادی کے فقدان کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں شکلیں ہوسکتی ہیں مگر ان سب میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے وہ قدر مشترک یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ اس واہمے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نامعلوم لوگ ان کے بارے میں کیا سوچ رہیں یا یہ کہ فلاں موقع پر میں نے ایسا کیا تو نجانے لوگ کیا سوچیں گے۔ کم ہمت لوگ اپنے اس واہمے کو اپنے لیے ایک مستقل رکاوٹ بنالیتے ہیں۔ اگر آپ میں خود اعتمادی کا فقدان ہے تو آپ اپنے حالات پر غور کریں‘ میرا دعویٰ ہے کہ مذکورہ بالا عیب آپ کو اپنی شخصیت میں خود ہی نظر آجائیں گے۔ ایسے لوگوں میں یا تو اپنے اوپر دوسروں کی جانب سے کی جانے والی کسی ملامت کا خوف ہوگا یا پھر اپنے کسی فعل سے دوسروں کی نظروں میں احمق اور بدھو کہلوائے جانے کا ڈر ہوگا۔ اگر آپ کی یہ ذہنی حالت ہے تو گویا آپ ایک عذاب میں مبتلا ہیں جو آپ کے قلب و دماغ کو مسلسل بے کار کیے ہوئے ہے۔ آپ کو اس عذاب میں مبتلا ہونے کی حالت میں یہ بھی محسوس ہورہا ہوگا کہ دوسرے لوگ خوش وخرم اور مطمئن ہیں‘ صرف آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو پریشان ہیں آپ ایسے دوسرے لوگوں کی طرح جنہیں آپ اپنی دانست میں مطمئن اور خوش و خرم سمجھتے ہیں کے جیسے بننے کی آرزو کریں گے۔ مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ اپنے اندر خوداعتمادی پیدا نہ کرلیں۔
اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنا کوئی بہت بڑا یا مشکل کام نہیں ہے۔ آپ اپنے مزاج میں چند تبدیلیاں لاکر مطمئن اور خوش و خرم زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ یہ خیال دل میں ہرگز نہ لائیے کہ آپ میںجو خامیاں ہیں وہ آپ کے مزاج کا حصہ ہیں اور آپ ان سے کسی طور بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ آپ بھی خوداعتماد انسان بن سکتے ہیں‘ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اس تبدیلی کیلئے ہمہ تن کوششیں کرنے پر ہمہ تن آمادہ ہوں۔
اگر آپ خود کو باہمت بنانے پرکمربستہ ہوچکے ہوں تو پھر سب سے پہلے اپنے اندر خود اعتمادی نہ ہونے کے اسباب تلاش کیجئے۔ جب یہ اسباب آپ کے علم میں آجائیں گے تب ہی آپ ان خامیوں کو دور کرنے کی تدابیر سوچ سکیں گے۔
بعض تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ انسانوں میں عدم اعتمادی کی خرابی عہد طفلی میں پیدا ہوتی ہے۔ فطری طور پر نومولود بچے کو اپنی ماں کی محبت کے ذریعے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے مگر چند صورتوں میں کسی وجہ سے بعض بچے اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں اپنی ’’مکمل شخصیت‘‘ ہونے کا احساس بھرپور طریقے سے نشوونما نہیں پاتا ہے اور وہ زندگی بھر غیرمستقل مزاج انسان بنے رہتے ہیں۔ اگر آپ میں خود اعتمادی کا فقدان ہے تو پھر بلاشبہ آپ بھی انہی بچوں میں سے ایک ہیں۔ اس قسم کا انسان دوسروں سے طمانیت اور یقین حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں دوسروں کی آراء سے اس بات کا یقین کرتا ہے کہ اس کی بھی دنیا میں کوئی اہمیت ہے‘ مگر وہ خود اپنے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قاصر رہتا ہے چنانچہ ایسے شخص کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دوسرے لوگ اسے اہمیت نہیں دے رہے ہیں تو وہ اس انکشاف سے بجھ کر رہ جاتا ہے اور مستقل ناکامی کو اپنا مقدر سمجھ لیتا ہے اس ذہنی پریشانی سے اس کے اپنے وجود کا شعور دھندلا جاتا ہے اس کے برعکس جو شخص خود اعتماد ہوتا ہے وہ اپنے بارے میں دوسرے لوگوں کی رائے کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا ایک ٹھوس وجود موجود ہے جو کہ حقیقی ہے اور اس وجود کو اس کے مناسب مقام کے اعتبار سے اہمیت بھی حاصل ہے۔ اگر آپ میں خود اعتمادی کا فقدان ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زندگی سے متعلق سب سے ابتدائی تجربہ افسوسناک تھا جس کی وجہ سے آپ میں اپنے اور اپنی شخصیت کے بارے میں شعور ذات پیدا نہیں ہوا لیکن اب جبکہ آپ کو اپنی اس بنیادی خامی کی اصل وجوہ کا علم ہوگیا ہے تو پھر آپ اپنی اس بنیادی خامی کو دور کرنے کیلئے مناسب اقدامات کرسکتے ہیں۔ یہ اقدامات جو آپ کی زندگی میں خوداعتمادی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہونگے‘ مندرجہ ذیل ہیں:۔
ماضی کے بجائے حال کی فکر کریں: ماضی کو بھول جائیے‘ حال پر نظر رکھیں‘ مستقبل کی فکر کیجئے اور اپنے ذہن میں اس خیال کو ہر لمحہ تازہ رکھئے کہ آپ کا خود کو کچھ نہ سمجھنا بالکل غلط ہے۔
اپنی شخصیت کو تسلیم کریں: اپنی شخصیت کو خود تسلیم کیجئے اور اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں خود کو برابر اس بات کا یقین دلاتے رہیے کہ آپ کی ذات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ کسی دوسرے شخص کی ہوسکتی ہے۔
اپنی شخصیت کو قابل قبول بنائیں: اپنی خامیوں کے ساتھ ازخود اپنی قابلیتوں کو بھی تسلیم کیجئے۔ خود کو زیادہ سے زیادہ اہم‘ پرکشش اور قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے رہیے۔ اگر بظاہر آپ کا سراپا دلکش نہیں ہے تو خود کو بننے سنورنے کی جانب مائل کیجئے۔ اپنے دل میں یہ خیال ہرگز مت لائیں کہ آپ لباس‘ میک اپ یا دیگر لوازمات سے خود کو آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
اپنی خوبیوں کو ابھارئیے: اپنے اندر موجود ہر خوبی کو ابھارئیے۔ اپنی ہر صلاحیت کو نمایاں کیجئے۔ اپنے اندر پوشیدہ جوہر قابل کو دنیا کے سامنے لائیے۔ انہیں مت چھپائیے‘ ان کا چھپانا انکساری نہیں بلکہ آپ کی خوداعتمادی کا خون ہے۔ جب آپ میں اپنی ذات کا شعور بیدار ہوجائے گا تو آپ خود کو ایک اہم انسان کی حیثیت سے تسلیم کرلیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنے اردگرد موجود لوگوں سے اچھے اور خوشگوار مراسم قائم کرنے کی جانب توجہ دیجئے۔ وہ لوگ یقینا آپ کے اچھے دوست ثابت ہوں گے اور انہیں بھی آپ کے ساتھ دوستی کا تعلق استوار کرنے میں خوشی محسوس ہوگی۔ یہ نکتہ یاد رکھیں کہ اپنے دل سے ’’خود کے کچھ نہ ہونے‘‘ کا واہمہ ہمیشہ کیلئے نکال دیں۔
خود اعتمادی کا درست مفہوم خود پر بھروسہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ حد سے تجاوز کرجائیں یا مصنوعی شخصیت اور متکبرانہ انداز گفتگو اختیار کریں اگر آپ کو یہ غلط فہمی ہو کہ خود کو دوسرے لوگوں کیلئے اس طرح قابل قبول بناسکیں گے تو یہ آپ کی خامی ہے اسے جلد دور کرلیجئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں