مجھے تم سے محبت ہے…
اتنی سی بات کہنے کو لگے بارہ برس مجھ کو
منیر نیازی نے اپنے اندر کی سادہ لوحی اور پیار کی ایک خواہش کو اتنی سادگی سے بیان کردیا اور یہ بات اس وقت اور شدت سے یاد آتی ہے جب ہم ایک واقف کار خاتون کی روئیداد سنتے ہیں وہ کس قدر بے چارگی سے بتارہی تھیں کہ اپنی عمر کے سنہرے دور کے 45برس جس شخص کے گھر کو اصل معنوں میں گھر بنانے میں لگانے کے بعد صرف تین سیکنڈ میں اس نے تین حرفوں میں اسے اپنی زندگی سے خارج کردیا اور طلاق کے لفظ کہتے وقت اسے تین شادی شدہ بچیوں اور دو بچوں کے کنبوں کا خیال نہیں آیا۔ جس عمر میں مزاج میں ٹھہراؤ‘ غصہ میں کمی‘ برداشت اور حوصلہ کی اضافی صلاحیت‘ شخصیت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر اس وقت جذباتی پن کامظاہرہ کیا جائے تو یہ غلطی خاندان کے کئی افراد کو بھگتنی پڑتی ہے۔
ہمارے یہاں متوسط طبقوں میں کئی نوبیاہتا دلہنوں سے پہلے بچے کی خوشخبری کی آس شادی کے دوسرے مہینے ہی لگالی جاتی ہے انہیں وقت نہیں دیا جاتا اور خاندان کی عورتیں دلہن سے سوال کرنے نہیں تھکتیں اور دلہن احساس محرومیت اور عدم تحفظ کا شکار نظر آنے لگتی ہے۔ کئی خواتین بچوں کی پیدائش کو دلہن کے مبارک قدموں سے تعبیر کرنے لگتی ہیں جو دلہنیں شادی کے چھ ماہ کے اندر اندر ماں بننے کی خوشخبری سنادیں تو وہ بہت بھاگوان سمجھی جاتی ہیں اور اگر کہیں سال بھر سے زیادہ کا عرصہ بیت جائے تو … بیٹے اور بھائی ہی کو نہیں اس خاتون کو بھی شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ مسلسل دباؤ کا شکار ہونے سے بچنے کیلئے نوبیاہتا لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ فوراً اولاد ہوجائے کیونکہ سسرال میں صرف اولاد کی کڑی مضبوط بندھن میں باندھے رکھ سکتی ہے جب گھر کی بڑی بوڑھی خواتین کی سوچ ایسی تنگ نظری اور بے انصافی پر مبنی ہو اور وہ انتقامی جذبے کے تحت کمزور بہو یا بھابی پر ظلم کرنے کو تیار بیٹھی ہوں تو ایسے میں اولاد کا ہتھیار آزمانا مجبوری ہوجاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون نے 45 برس تک بچوں کی پرورش کی ان کی تعلیم‘ صحت‘ آرام اور آسائشوں کا خیال رکھا‘ اینٹ گارے‘ پتھروں کے مکان کو گھر بنایا اورنانی دادی بن کر طلاق کا پرزا لیکر اسی گھر کی دہلیز پار کرنے پر مجبور کردی گئی۔
کسی سیانے نے کیا خوب بات کہی تھی کہ میاں اور بیوی کا رشتہ کمزور دھجی نہیں ہوتا لیکن ا گر ایسا ہوجائےتو صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد ایک مخصوص وقت کا انتظار کیا جائے اس دوران دونوں فریقین تحمل و برداشت اور دور اندیشی سے کام لیں اور ایک دوسرے کو دل سے معاف کردیں اور رجوع کرلیں یعنی نباہ ہوجائے اس عمل کو اللہ تبارک و تعالیٰ پسند فرماتے ہیں اور دوسرے طہر یعنی انتظار کی مہلت کے دوران اگر نباہ نہ ہورہا ہو توطلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے دوسری طلاق ہوجاتی ہے اس صورت میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے لیکن اگر تیسری مہلت میں بھی نباہ کی صورت نہ نکل رہی ہو تو تیسری طلاق کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ طلاق کے بعد عدت کی عمر گزارنی ضروری۔ اس دوران نامحرموں سے مکمل پردہ بھی ضروری ہے اور نان و نفقہ کی ادائیگی سابقہ شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں تین طلاق دینا ناپسندیدہ عمل بھی قرار دیا گیا کاش ہم اسلام اور اس کی حدود کو سمجھنے کی کوشش کرلیں۔ طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔۔
ہرمرد اور عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار اور ہر قسم کے اختلاف و تنازعہ سے پاک ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کی خواہش کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کی بنیاد بھی پائیدار ہو۔ خوبصورتی عارضی ہوسکتی ہے مال و دولت بھی ختم ہونے والی چیز ہے جبکہ اخلاق و کردار‘ فکر و مزاج کی پائیداری اور خوشگوار تعلقات ایسی صفات ہیں جو یادگار ہوتی ہیں اورباقی رہتی ہیں۔لڑکا ہو یا لڑکی ان کا اخلاق و کردار جتنا اچھا ہوگا ان کی ازدواجی زندگی اتنی خوشگوار اور سکون وراحت کا باعث ہوگی چاہے وہ معاشی طور پر کمزور ہوں‘ ظاہری طور پر خوبصورت نہ ہوں یا اونچے خاندان یا قبیلے سے ان کا تعلق نہ ہو۔حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال و حسب نسب‘ خوبصورتی اور اس کے اخلاق کی وجہ سے تو تم دینداری کو ترجیح دو۔‘‘لڑکی والوں کیلئے ہدایت کی گئی کہ ’’جب تم کو ایسا کوئی آدمی شادی کا پیغام دے جس کے دین و اخلاق قابل اطمینان ہوں تو اسے قبول کرلو ورنہ زمین میں فتنہ فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ (ترمذی)
عورت کے بغیر گھر کا تصور نہیں کیا جاسکتا اورایک پرسکون و پرمسرت گھر بسانے کیلئے عورت کے تعاون اور صحیح روئیے کی ضرورت ہوتی ہے اگر عورت اپنے رویے اور عمل سے اپنے شوہر کا دل نہ جیت سکے تو وہ گھر تناؤ‘ الجھن اورباہمی اختلاف اور نفرت کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صالح عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت میں ان کے حقوق کی نگرانی کرتی ہیں۔‘‘ (النساء 34)
اللہ تعالیٰ نے شوہر کی ذمہ داریاں بھی بتائی ہیں کہ وہ بیوی کے لیے نان و نفقہ کا انتظام کرے اور اسے علیحدہ گھر بھی دے۔ جب دونوں یا کوئی ایک اپنی ضد ہٹ دھرمی اور خود پرستی میں مبتلا ہوجائے تو بات طلاق یا خلع تک جاپہنچتی ہے۔ ایسے مواقع پر شوہر اور بیوی کو بذات خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے خاندان کے بزرگوں کی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور ان کے مشوروں سے باہمی صلح کی کوشش کرنی چاہیے۔ حتیٰ الامکان یہی کوشش ہونی چاہیے کہ عدالت اور پولیس وغیرہ سے رجوع نہ کرنا پڑے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں