ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کاانتخاب نام اورجگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کراناچاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں
السلام علیکم حکیم صاحب! عبقری باقاعدہ پڑھتی ہوں‘ ہر مہینہ کسی بہن کی دکھ بھری کہانی پڑھتی ہوں‘ آج سوچا کہ میں بھی اپنی داستان سنائوں شاید کوئی حل مل جائے۔
میری شادی جلدی ہوگئی اور چار چھوٹے بچوں کے بعد میں بیوہ ہوگئی۔ والدین حیات تھے‘ ان کے ساتھ رہ کر ملازمت شروع کی‘ پھر باہر جانے کیلئے کوشش کی تو بحیثیت ٹیچر کے جاب مل گئی‘ ساتھ ہی گھر کا الائونس اور بچوں کے الائونس بھی ملے‘ بچوں نے شروع سے امریکہ میں پڑھنے کا شوق ظاہر کیا تھا‘ میں نے دو بینکوں سے قرض لیا پہلے بڑے بیٹے کو بھیجا پھر دوسرے بیٹے اور بیٹی کو بھی داخلہ دلوا دیا۔ اس دوران میں نے بہت سختی اٹھائی اور ہر ماہ بھاری قسطیں ادا کرتی رہی اور بہت ہی کفایت شعاری سے زندگی گزاری‘ گھر کاکام اور محنت کی ملازمت سے صحت پر اثر پڑا اور جوڑوں کا درد‘ بلڈپریشر‘ انجائنا کی تکلیفیں شروع ہوگئیں۔ اسی اثناءمیں بڑے بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ اتفاق سے داماد بہت ہی غصہ والی طبیعت کے ملے۔ ایک نے تو بیوی پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کیا۔ میں نے باہر کے ملکوں میں رہ کر بچوں میں اسلامی قدریں اور مذہبی عقیدت کی ترغیب دی۔
بڑے بیٹے کی شادی ہوئی تو بظاہر تعلیم یافتہ اور خوبصورت بہو نے چند دنوں میں وہ پرپرزے نکالے‘ سخت لالچی اور گستاخ نکلی‘ میں نے سوچا تھا کہ قرض میں نے اتار دیا ہے اور ملازمت چھوڑ کر پنشن لے لی تھی تو اب سکون سے بیٹوں کے ساتھ بڑھاپا گزارونگی مگر قسمت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ بیٹا جب گھر پر ہوتا تو بہو اس طرح پیش آتی تھی جیسے میرا بہت خیال رکھتی ہے۔شوہر کے دفتر جاتے ہی گستاخی سے جواب دیتی۔ ساری استعمال کی چیزوں کو الماریوں میں رکھ کر تالے لگادیتی تھی تو مجھے بار بار مانگنا پڑتا تھا‘ اس حد تک گری ہوئی تھی کہ اپنے لیے اور بچوں کیلئے اعلیٰ کوالٹی کا سامان لاتی اور چھپادیتی اور میری لیے سستی اور گھٹیا چیزیں باہر رکھتی۔ اگر بیٹے سے میں ذکر کرتی تو وہ یقین نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ آپ روایتی ساسوں کی طرح کیڑے نکالتی ہیں۔ حالانکہ میں حتیٰ الامکان کوشش کرتی تھی کہ گھر کے کام میں بچوں کے ساتھ ہاتھ بٹائوں لیکن وہ صاف منع کردیتی تھی اور کہتی تھی کہ مجھے سٹائل سے کام کرنے کی عادت ہے۔ آپ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیے۔ اگربیٹا کبھی میرے کھانے پکانے کی تعریف کرتا تو تین چار دن تک مجھ سے بات نہ کرتی۔ ایک دفعہ چھوٹی سی بات پر مجھ سے سخت گستاخی کی اور میں اپنے چھوٹے بیٹے کیساتھ رہنے چلی گئی۔ بڑے بیٹے نے روکنے کی کوشش بھی نہ کی۔
چھوٹا بیٹا کنوارا تھا لہٰذا میں نے ساری پنشن اور جمع پونجی اس پر صرف کی تاکہ پڑھ لکھ کر اچھی ملازمت پاسکے کچھ لڑکیوں کیساتھ اس کی خط وکتابت تھی اور ایک لڑکی جو اس کی پسند تھی اس کے ساتھ اس کی شادی کردی۔ شروع میں وہ بھی بڑی مثالی بہو کی طرح بننے کی کوشش کرتی لیکن چند ہی دنوں میں اس کی گھٹیا ذہنیت سامنے آگئی۔ میں نے کبھی جہیز کا ذکر بھی نہ کیا تھا حالانکہ اپنی بیٹیوں کو میں نے دنیا کا سامان اعلیٰ کوالٹی کا باہر سے خریدا ہوا دیا۔
دونوں بہوئویں خالی ہاتھ آئیں‘ نہ ہی مجھے کوئی توقع تھی مجھے تو صرف خوش اخلاق اور نماز روزے کی پابند لڑکیاں چاہیے تھیں۔ دوسری بہو نے آتے ہی اعلان کیا کہ میرا جو سالہا سال سے میں نے قیمتی سامان جمع کیا تھا وہ اسے ری ارینج کرے گی۔ میں نے کوئی اعتراض نہ کیا لیکن اس نے تو تباہی مچادی بغیر میری اطلاع کے نہ صرف چیزوں کی جگہ بدلی بلکہ کافی سامان بغیر میری اجازت کے باہر پھینک دیا کہنے لگی اماں نے کہا تھا کہ لڑکی جب بیاہ کے جاتی ہے تو شوہر کی سب چیزیں اس کی ہوجاتی ہیں۔ میں نے کہا میں تیس سال سے یہ سامان جمع کررہی ہوں۔ تمہارے میاں نے تو اس میں سے کچھ نہیں خریدا‘ اس کی تو ابھی ملازمت لگی ہے لیکن اس کا رویہ نہ بدلا۔ جو میں کہتی تھی نفی میں جواب دیتی۔ مجھ سے اور اپنے میاں سے بھی بدتمیزی سے اونچی آواز میں لڑتی میں اپنے ہی گھر میں کسی چیز کو ادھر ادھر کرتی تو شور مچادیتی۔
شروع شروع میں بیوٹی سیلون جاتی اور کچھ جاذب نظر لگتی‘ رفتہ رفتہ بال رنگنا چھوڑ دئیے تو سفید بال نظر آنے لگے (عمر کے بارے میں جھوٹ بولا تھا) بے تحاشہ کھانے کی وجہ سے بیحد موٹی ہوگئی‘ اکثر اپنے کالج کے لڑکوں سے بھی فون پر باتیں کرتی‘ میرے ساتھ ہر وقت بدتہذیبی اور گستاخی سے پیش آتی اور میرے بیٹے کے ساتھ وہ چونچلے کرتی کہ فلمسٹار پیچھے رہ جائیں۔
بیٹا اس پر فریفتہ تھا اور میرے ساتھ نافرمانی کرنے لگا اور بدتمیزی سے جواب دینے لگا میں نے زیادہ تر خاموش رہنا شروع کردیا لیکن بار بار بیوی کے اُکسانے پر کہتا ہے کہ جو میری بیوی کہے آپ کو برداشت کرنا ہوگا نہیں تو آپ کو باہر نکال دوں گا وغیرہ........
یہاں ملک میں حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں حفاظت سے اکیلی رہ سکوں۔ حالانکہ پنشن پر گزارا کرسکتی ہوں کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے نہ کسی پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی ساری کمائی‘ جمع پونجی‘ صحت‘ جوانی سب ان بچوں پر قربان کردی تب بھی چین نہ ملا۔ نجانے مجھ جیسے کتنے ایسے والدین ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اولاد جوان ہوکر بڑھاپے کا سہارا بنے گی لیکن معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ میں نے شروع سے چونکہ اسلامی تعلیم دی‘ نماز‘ روزے کے پابند ہیں۔ حج عمرے کروائے ہیں لیکن بیویوں نے ایسا قبضہ کیا ہے ان کے دماغوں پر کہ ان کے اچھے بُرے کی تمیز نہیں رہی۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ کہاں جائوں؟؟؟
(قارئین الجھی زندگی کے سلگتے خط آپ نے پڑھے ، یقیناآپ دکھی ہو ئے ہو ں گے ۔ پھر آپ خو د ہی جواب دیں کہ ان دکھوں کا مدا و ا کیا ہے ؟)
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 393
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں