ڈیپریشن کا مرض محرومیوں‘ ناکامیوں‘ مایوسیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوان نسل‘ بزرگ حضرات‘ خواتین وغیرہ ہر قدم پر محرومیوں‘ مایوسیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیپریشن کا مرض بڑھتا جارہا ہے
مایوسی‘ گھریلوپریشانیاں‘ مہنگائی‘ نشہ آور اشیاءکا استعمال‘ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات‘ بجلی وپانی کا شدید بحران روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل نے ڈیپریشن کا مرض عام کردیا ہے کچھ سال قبل مہنگائی اور حالات ایسے نہیں تھے لوگ خوشحال زندگی بسر کررہے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے لوگوں میں نفسیاتی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ڈیپریشن ایک مہلک بیماری ہے اور اگر یہ شدت اختیار کرجائے تو مریض کی زندگی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اس کی ذہنی و جسمانی قوت ختم ہوجاتی ہے ایسے فرد کادنیا کی تمام آسائشوں سے دل بھرجاتا ہے اس کا دل کسی بھی کام میں نہیں لگتا وہ نوکری کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا بلکہ اگر مزید تعلیم بھی حاصل کرنا چاہے تو تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا ذہن کام نہیں کرتا۔ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسا فرد تنہا رہنا پسند کرتا ہے کسی سے بات چیت نہیں کرتا اپنے گھر والوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ قریبی رشتوں کو بھی بھول جاتا ہے بلکہ بعض مریض اپنے بچوں سے بھی کنارہ کشی اختیارکرلیتے ہیں۔ لہٰذا خود ڈیپریشن کے مریض کے ساتھ ساتھ اس کا پورا گھرانہ برباد ہوجاتا ہے کیونکہ اگر یہ مرض گھر کے کمانے والے یعنی باپ شوہر جیسے رشتوں کو لاحق ہوجاتا ہے تو وہ اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرسکتا اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں کرسکتا اور بالآخر میاں بیوی کے آپس کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں جس کااثر ان کی ازدواجی زندگی پر پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کے تعلقات بگڑتے جاتے ہیں اور بالآخر طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ڈیپریشن کا مرض زیادہ شدت اختیار کرجائے تو مریض گھر والوں پر غصہ‘ شک‘ بلاوجہ لڑائی جھگڑا کرتا ہے اور پھر ایسے مریض کو اس کے گھر والے مجبور ہوکر ذہنی و نفسیاتی ہسپتالوں میں داخل کروا دیتے ہیں جہاں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا جس سے یہ مرض مزید بگڑ جاتا ہے۔ ایسے مریضوں سے بھائی‘ بہن‘ بیوی‘ بچے اور رشتے دار سب دور ہوجاتے ہیں۔
ڈیپریشن کا مرض محرومیوں‘ ناکامیوں‘ مایوسیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوان نسل‘ بزرگ حضرات‘ خواتین وغیرہ ہر قدم پر محرومیوں‘ مایوسیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیپریشن کا مرض بڑھتا جارہا ہے اس کے علاوہ کچھ علامات اس کے پیدا ہونے کی بھی ہیں دن میں دیر سے اٹھنا‘ راتوں کو دیر تک جاگنا‘ چڑچڑاپن‘ غصہ‘ گھبراہٹ۔ اس کے علاوہ شور کی آلودگی‘ ٹریفک کا شور‘ دھواں یہ سب چیزیں انسانی صحت کیلئے مضر ہیں جو انسان کے دماغ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ خواتین میں ڈیپریشن کے بڑھنے کی وجوہات بھی بہت سی ہیں اگر شوہر اور بیوی کے آپس کے تعلقات ناخوشگوار ہوں‘ گھر میں ہروقت لڑائی جھگڑے رہتے ہوں تو اس کا اثر ان کے بچوں پر بھی پڑتا ہے۔
تفریح انسانی زندگی کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔ گھریلو خواتین گھر کے کام کاج کرکے تھک جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گھروں کے اور بھی بہت سارے مسائل ہوتے ہیں جن کا وہ شکار ہوتی ہیں اور فارغ اوقات میں ان کی سوچوں میں اضافہ ہوجاتا ہے لہٰذا ایسی خواتین کو تھوڑا سا ماحول بدلنا چاہیے باہر کہیں گھومنے پھرنے چلی جائیں یا کہیں پرفضاءمقام پر تفریح کیلئے چلی جائیں‘ اپنی فیملی کے ہمراہ اس سے ان کو تھوڑا سا ذہنی و جسمانی سکون میسر ہوگا اور وہ ڈیپریشن سے جلد چھٹکارا حاصل کرلیں گی۔ آج کل کے دور میں خصوصاً والدین میں ڈیپریشن بڑھنے کی خاص وجہ ان کے بچوں کی نافرمانیاں ہیں۔ آج کل کے بچے پہلے جیسے نہیں ہیں لہٰذا والدین سے بہت زیادہ نافرمانی بھی کرتے ہیں ان کا کہنا نہیں سنتے جس کی وجہ سے والدین ٹینشن لیتے ہیں اور یہی ٹینشن بہت زیادہ بڑھ جائے تو ڈیپریشن کی صورت اختیار کرلیتی ہے اس مرض کا علاج اگر فوری کرلیا جائے تو بہتر ہے۔
مریض خود بھی اپنے ماحول کو بدلے خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھے سوچیں فارغ رہنے والوں کو زیادہ آتی ہیں اپنی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہ کریں اپنے ذہن کو غیرضروری سوچوں سے دور رکھیں۔ ٹینشن زیادہ نہ لیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔ نماز‘ روزے کی پابندی کریں۔
ہم ان تمام حالات کا جائزہ لیں جن سے یہ تمام اسباب پیدا ہوتے ہیں۔اگر اردگرد کا ماحول خوشگوار ہوگا تو ذہن تروتازہ رہے گا اور وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گے جس کے باعث لوگ ڈیپریشن جیسے مرض کا بھی شکار نہیں ہوںگے اور نہ ہی نفسیاتی مریض کہلائیں گے۔ لہٰذا ہمارے معاشرے سے ڈیپریشن کا خاتمہ اسی طرح ہوسکتا ہے جب تمام افراد مل جل کر تعاون کریں۔ ڈیپریشن پیدا کرنے والی علامات پر غور وفکر کریں اور تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔درج ذیل طریقوں سے ذہنی دبائو کو قابومیں لایا جاسکتا ہے۔
٭ ذہنی دبائو کم کرنے کا بہترین طریقہ اپنے احساسات کو اپنے کسی اچھے دوست کو بتانا ہے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھنے کیلئے رویوں میں لچک رکھی جائے۔
٭ ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک اچھا طریقہ سانس کی مشقیں ہیں۔ مراقبے کے ذریعے یکسوئی بھی ذہنی دبائو سے نجات دلاتی ہے۔٭ ذہنی دبائو کے وقت وہ کام کریں جس سے آپ محظوظ ہوتے ہیں۔ ایسے مشاغل جو خوشی کا باعث ہوں وہ ذہنی دبائو کو بہت حد تک ختم کردیتے ہیں۔
٭ اپنی سوچوں کو ہمیشہ مثبت رکھیں اگر کسی صورتحال پر آپ قابو نہیں رکھتے تب اس حقیقت کا اقرار کیجئے۔ بلاوجہ کسی شخص کے بارے میں منفی خیالات رکھنے سے ذہنی دبائو کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
٭اپنا خیال رکھیے۔ کام اور آرام میں توازن ذہنی دبائو سے بچاتا ہے ۔ کام کی مصروفیت میں اپنے آپ کو مت بھول جائیے۔ یہ اشد ضروری ہے۔٭ حرکت میں برکت ہے ذہنی دبائو کو کم کرنے کا ایک اچھا طریقہ حرکت میں رہنا ہے۔ اگر آپ آفس میں ہیں تو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک آنا جانا ہاتھوں اور بازوئوں کو ہلکے پھلکے انداز میں ہلانا یا اس طرح کی کوئی دوسری مشق کرنا ذہنی دبائو کو آپ سے دور رکھتا ہے۔
٭قرآن کی تلاوت بلند آواز میں کریں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 349
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں