اکثر ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ کام کا دبائو جنسی خواہش کو دبانے یا کم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مرد عموماً جنس کو تفریح اور رنگ رلی خیال کرتے ہیں جبکہ عورتیں جنس کو ایسی سرگرمی سمجھتی ہیں جس میں ان کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔
لوگوں کو ایک عام شکایت یہ رہتی ہے کہ جسم ان کی جنسی خواہشات کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ زیادہ سرگرمیاں چاہتے ہیں۔ جسم ان کو روک لیتا ہے۔ ہماری روایتی طب کا سب سے بڑا مسئلہ بعض لوگوں کے نزدیک جنسی اعضاءکو نئی زندگی اور نئی قوت عطا کرنے والی دوائیں تیار کرنا رہا ہے۔ صدیوں سے ان گنت حکیم اور سنیاسی اس قسم کی دوائیں تیار کرنے یا جڑی بوٹیاں ڈھونڈنے کے ڈھول بجاتے رہے ہیں۔ بادشاہ اور امراءہر زمانے میں ان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں بھی قوت بخش ادویات کی تیاری پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
اب کچھ عرصے سے ایک نئی قسم کی جنسی شکایت کا چرچا ہونے لگا ہے۔ اس کو آپ ازدواجی رُکھائی یا بے نیازی کا نام دے سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اور خاص طور پر عورتیں یہ شکایت کرنے لگی ہیں کہ جنس میں ان کی دلچسپی اور رغبت ختم ہورہی ہے۔ وہ ازدواجی خواہش سے محروم ہورہی ہیں‘ کبھی کبھار کوئی خواہش بیدار ہوتو بھی اس میں کوئی شدت نہیں ہوتی۔ ازدواجی عمل ان کیلئے روکھا پھیکا اور بے لطف بن کر رہ گیا ہے۔ بڑے شہروں میں یہ شکایت دیہی اور قصباتی علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
یہ نیا مسئلہ تشویش‘ کھچائو ‘ بوریت‘ اضطراب‘ توجہ کے انتشار زندگی کے غیر ضروری بوجھ‘ مصروفیات کے انبار اور ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ گویا غیر فطری زندگی نے اس روگ کو جنم دیا ہے اس کے سبب ازدواجی زندگی متاثر ہورہی ہے۔
عام طور پر میاں بیوی دونوں بیک وقت جنسی رُکھائی کا شکار نہیں ہوتے۔ فرض کیجئے کہ ایسا ہوجائے تو بھی ازدواجی زندگی میں بے رخی اور بے نیازی پیدا ہوتی ہے اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس روگ کی زد میں آجائے تو لازمی طور پر الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو فطری اور خوشگوار انداز میں ازدواجی زندگی بسر کرنے کو کم و بیش ناممکن بنادیتی ہے۔ لہٰذا اس مضمون میں ہم اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہم کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
معالجین کا کہنا ہے کہ جنس کے جسمانی پہلو سے تعلق رکھنے والے مسائل کو حل کرنا آسان ہے مگر ازدواجی رُکھائی بنیادی طور پر نفسیاتی مسئلہ ہے لہٰذا یہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ بہرحال اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ ازدواجی خواہش یا تحریک کو کس طرح بیدار کیا جاسکتا ہے؟ جب ازدواجی زندگی بے کیف ہوجائے اورخواہش ختم ہونے لگے تو پھر اس میں نئی روح کس طرح پھونکی جاسکتی ہے اور دوبارہ کس طرح لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے؟
کئی سال پہلے جنسی امور کے شہرہ آفاق مغربی ماہر ڈاکٹر ولیم ماسٹرز نے اس کا ایک سیدھا سادا جواب دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ خواہش کی کمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایک نیا خیال دیا جائے۔ ان کو ایک نیاطرز حیات اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
دبائو دور کیجئے!
اکثر ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ کام کا دبائو ازدواجی خواہش کو دبانے یا کم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مرد عموماً جنس کو تفریح خیال کرتے ہیں جبکہ عورتیں جنس کو ایسی سرگرمی سمجھتی ہیں جس میں ان کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ مستقل تھکن‘ غیرضروری مصروفیت‘ کام کی زیادتی اور جذبات کی کمی کے باعث اکثر لوگ اور خاص طور پر عورتیں اس اضافی توانائی سے محروم ہوجاتی ہیں جو صحت مند ازدواجی سرگرمی اور لطف اٹھانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے جوڑے فرائض کے پہاڑ تلے دبے رہتے ہیں۔ معیار زندگی کو بلند کرنے کی پاگل دوڑ نے بہت سے لوگوں کو فطری تقاضوں پر مناسب توجہ دینے سے روک دیا ہے۔ ان کو اپنے آپ کو بنانے سنوارنے اور جسم کیلئے فرصت ملتی ہے اور نہ ہی وہ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ازدواجی خواہش معدوم ہونے لگتی ہے۔ اکثر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ازدواجی خواہش چونکہ بھوک پیاس کی طرح بنیادی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ ختم ہوتی ہے اور نہ ہی کمزور پڑتی ہے مگر ایسا نہیں ہے جنس کو نظرانداز کرنے والے جوڑوں کو اپنی غلطی کا احساس عموماً دیر سے ہوتا ہے۔ تب بہت سا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
بعض عورتیں اور مرد جنسی صلاحیت میں کسی خامی کے باعث بھی ازدواجی تعلق سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض عورتوں کو زندگی میں کبھی انزال کا تجربہ نہیں ہوتا۔ شادی کے ابتدائی زمانے میں وہ انزال کے مرحلے تک پہنچنے کیلئے ہاتھ پائوں مارتی ہیں لیکن مسلسل ناکام رہنے کی وجہ سے وہ اس ساری جدوجہد سے مایوس ہوجاتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ مایوسی بے نیازی کا رنگ اختیار کرنے لگتی ہے۔
جبر کو ختم کیجئے
عورتوں میں ازدواجی تحریک کے کمزور ہونے کی ایک اور وجہ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ جنس ان کیلئے مساوی شراکت کا موقع مہیا نہیں کرتی۔ جب ان کا اپنا جی چاہے تو وہ اظہار نہیں کرسکتیں ۔ گویا ازدواجی تعلق کو ان فرائض میں شامل کرلیا گیا ہے جن کو شوہر کے حکم پر پورا کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تعلق اوپر سے ٹھونسا جانے والا حکم بن جاتی ہے۔ لہٰذا کئی عورتیں لاشعوری طور پر اس سے متنفر ہوجاتی ہیں۔
ازدواجی تعلق سازگار ماحول چاہتا ہے۔ میاں بیوی سازگار ماحول نہ بناسکیں تو جنس لطف و مسرت کا سرچشمہ نہیں رہتی۔ اسی طرح اگر فرد کی زندگی مسلسل ناکامیاں مایوسیوں اور حسرتوں کا شکار ہوجائے تو ان کا منحوس سایہ ازدواجی تعلق پر بھی پڑتا ہے اور فرد آہستہ آہستہ رُکھائی کا شکار ہونے لگتا ہے۔
نفسیات کے ایک ماہر نے لکھا ہے کہ مباشرت کے دوران لوگوں کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات اور احساسات ابھرتے ہیں اگر یہ احساسات اور خیالات مسلسل منفی قسم کے رہیں یعنی ان کا تعلق زندگی کی تلخیوں‘ ناکامیوں‘ محرومیوں اور حسرتوں سے ہو تو پھر وہ جنس سے بیزاری پیدا کرنے لگتے ہیں اور ازدواجی تحریک کو کمزور کردیتے ہیں ان خیالات و احساسات پر قابو پاکر آپ ازدواجی رکھائی کو کم کرسکتے ہیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ ازدواجی رکھائی عموماً عارضی ہوتی ہے جب اس کو پیدا کرنے والا سبب ختم ہوجائے تو ساتھ ہی رُکھائی رخصت ہوجاتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 302
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں