ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں (قندیل شاہد، ڈی جی خان)
امیرالمومنین بیت المال کے ذمہ دار کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے اپنی حاجت بیان کی کہ ”مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی دے دو“ بیت المال کے ذمہ دار نے جواب دیا ”امیرالمومنین! اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نے آپ بیتی میں اپنا ایک قصہ لکھا ہے کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لئے ایک چھوٹا سا تکیہ بنادیا تھا جیساکہ عام طور پر بچوں کے لئے بنایا جاتا ہے، مجھے اس تکیے سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت میں اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے۔ ان کو تکیے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ ابا جی! میرا تکیہ لے لیجئے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ ان کو اس طرح پیش کیا جیساکہ میں نے اپنا دل نکال کر اپنے باپ کو دے دیا، لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے ان کو پیش کیا، اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ ”ابھی سے تو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے“ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو دراصل باپ کا دیا ہوا ہے، لہٰذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔ حضرت شیخ الحدیث لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے بہت برا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر والد صاحب کو دیا تھا۔ اس کے جواب میں ابا جان نے ایک تھپڑرسید کردیا لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعد سے ذہن کی سوچ بدل گئی۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ذریعے دی ہیں تو وہ ہم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی خرچ کریں، غریب بچوں پر بھی خرچ کریں، گھر میں کام کرنے والی نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں۔ مثلاً ابو کوئی چیز لائے اور لاتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ چیز سب میں تقسیم ہو تو ایک حصہ نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں اور اس تقسیم میں ہم کنجوسی نہ کریں اور دل کھول کر خرچ کریں۔
ایسا کہاں سے لاﺅں
عیدالفطر کا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے نئے کپڑ ے خریدنے میں مصروف تھا، جب بڑوں میں عید کے لئے یہ گہما گہمی موجود تھی تو بچے کہاں اس خوشی کے موقع سے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدین سے عید کے لئے کپڑوں کی خواہش ظاہر کی اور تمام بچوں کی خواہش کی تکمیل بھی کردی گئی، اب یہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانے لگے، بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ کسی غریب کے ہوں یا امیر کے، وہ عام شخص کے بچے ہوں یا امیرالمومنین کے بچوں نے بھی اپنی خواہش والدہ صاحبہ سے کردی۔ دن بھر کے کاموں کو سمیٹ کر جب امیرالمومنین رات کو گھر تشریف لائے تو اہلیہ نے بچوں کی خواہش کا ان کے سامنے اظہار کردیا کہ بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔ امیرالمومنین خاموش رہے، کوئی جواب نہ دیا اور آرام کی غرض سے لیٹ گئے لیکن نیند کہاں آتی۔ یہ نئی پریشانی جو سر پر آپڑی تھی، وہ سوچنے لگے کہ گھر میں خریدنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف بچوں کی خواہش تھی اس کو رد کرنا ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ بیت المال سے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی لے لیتا ہوں جس سے بچوں کی خواہش کی تکمیل ہوجائے گی اور اگلے مہینے کے راشن کے لیے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انتظام فرمادیں گے، یہ سوچ کر ان کو کچھ اطمینان ہوا۔ اگلے دن صبح ہی امیرالمومنین بیت المال کے ذمہ دار کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے اپنی حاجت بیان کی کہ ”مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی دے دو“ بیت المال کے ذمہ دار نے جواب دیا ”امیرالمومنین! اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے اور پورے مہینے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے دیں گے“ امیرالمومنین اس بات کے ساتھ لاجواب ہوگئے اور خالی ہاتھ ہی واپس لوٹ آئے اور اہلیہ سے سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عید پر پرانے ہی پہن سکیں گے۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ عید کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن امیرالمومنین کے بچے پرانے کپڑوں میں نماز کے لئے عیدگاہ کی طرف آرہے ہیں۔ دنیا اس عدل و انصاف اور زہد و تقویٰ کے علم بردار امیرالمومنین کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کے نام سے جانتی ہے۔
”ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں“
ایک اندھا اور ایک لنگڑا
بچو! کسی دیہات میں بہت سارے لوگ رہتے تھے۔ انہی میں ایک شخص جو ٹانگوں سے معذور تھا وہ بھی رہتا تھا۔ اس کا کہیں آنا جانا مشکل تھا پھر بھی وہ اوروں کو تکلیف دینے کی بجائے کسی طرح اپنا کام کرلیتا تھا۔ اسی گائوں میں ایک نابینا (آنکھوں سے معذور) شخص بھی رہتا تھا وہ بے چارہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا کہ دیکھنے سے ہی مجبور تھا۔ ایک دفعہ سوکھی گھاس میں کسی نے جلتی ہوئی لکڑی ڈال دی آگ لگی اور ایسی بھڑکی کہ گھر اور جھونپڑیاں سب میں آگ لگ گئی۔ سب جان بچا کر بھاگ رہے تھے بے چارہ لنگڑا بڑا پریشان تھا اس لیے اللہ سے دعائیں کرنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک ترکیب سمجھائی بس وہ کسی طرح اندھے تک پہنچا وہ پریشان ٹکراتا ہوا ادھر ادھر بھٹک رہا تھا لنگڑے نے اندھے سے کہا کہ تم مجھے اپنی کمر پر سوار کرلو میں بھاگ نہیں سکتا تم دیکھ نہیں سکتے اگر ہم الگ الگ رہے تو دونوں پھنس جائینگے اور جل جائیں گے۔ اندھے نے لنگڑے کو سہارا دیکر اپنی کمر پر سوار کرلیا۔لنگڑا دیکھ دیکھ کر راستہ بتاتا گیا اور نابینا تیز تیز چلتا گیا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور دکھ درد سمجھنے کی وجہ سے جلتے ہوئے گائوں سے دونوں آرام سے نکل آئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دونوں کی جان بچ گئی اور کسی تیسرے شخص کی ان کو خوشامد بھی نہیں کرنا پڑی۔ دیکھو بچو! اللہ کی خاطر کسی کے کام آنا اور یہ فیصلہ کرلینا کہ ہم اللہ ہی سے مدد مانگیں گے کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے یہ بہت بڑی دولت ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 479
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں