مجھے اپنا شریک حیات چننے کا اختیار دیا جائے
زندگی پر اختیار تو اللہ کو ہے مگر فیصلوں پر اختیار تو انسان کو حاصل ہے انسان گو تخلیق تو مٹی سے ہوا ہے مگر چند انسانوں کے فیصلے چٹانوں کی سی مضبوطی لیے ہوئے ہیں جنہیں عمل میں لانے کیلئے انسان کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ صدیوں سے سنتے آئے ہیں کہ انسان کو ”میں“ سے عشق ہوتا ہے اپنی خودی اپنی انا سے محبت ہوتی ہے اپنے خوابوں پر مان ہوتا ہے وہ اپنے فیصلوں پر ناز کرتا ہے اور شاید یہ حقیقت بھی ہے خواہ صدیوں پہلے کا انسان ہو یا آج وہ اپنی شخصی آزادی اور سوچ و فکر کی راہوں کا تنہا مسافر رہنا پسند کرتا ہے وہ صرف اپنی خواہشات، امنگوں اور جذبات کے تابع زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اس سے صرف اس کی ذات کی تسکین وابستہ ہوتی ہے اور اگر فیصلہ زندگی کے ساتھی کے انتخاب کا ہوتو معاملے کی شدت کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ ہمارا معاشرہ روایت پسند اور سماجی و اخلاقی اقدار کا مرکب ہے آزادی اپنی جگہ مگر معاشرے کے تقاضے، والدین کا ادب و احترام ان سب امور کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ پہلے زمانوں میں بھی نوجوان ہم سفر کا چنائو کرنے میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوجایا کرتے تھے مگر اب تو صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہے ہر تیسرا نوجوان اپنی مرضی اور پسند کی شریک حیات کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔ہمارا معاشرہ روایت پسند اور سماجی و اخلاقی اقدار کا پاسدار ہے اس لیے یہاں بغاوت کرنا آسان نہیں ہوتا جو لوگ بغاوت کرکے اپنے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں ان کو بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے معاملے میں والدین کے فیصلے کا احترام کیا جاتا ہے اور والدین عام طور پر نہ لڑکی کی پسند کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ لڑکے کی پسند کو!لیکن زندگی حقیقت اور خواب کا ایک حسین سنگم ہے۔ انسان خواب دیکھتا ہے اور پھر اسے حقیقت کا لبادہ پہنانا چاہتا ہے خواب دیکھنے پر نہ کوئی پابندی عائد ہوسکتی ہے اور نہ اس میں عمر اور وقت کی کوئی قید ہے گو کہ بعض خوابوں کو حقیقت کا روپ نہایت کٹھن ثابت ہوتا ہے اگر عزم جواں ہمت قائم اور لگن سچی ہوتو ناممکن ممکن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں معاشرے کے رجحانات تبدیل ہونے کی بنا پر ”لومیرج“ کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا جارہا ہے اس رجحان میں اضافہ کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
انٹرنیٹ اور چیٹنگ نے جہاں میلوں کے فاصلے کو سمیٹ کررکھ دیا ہے وہاں انٹرنیٹ پر شادی کا نیا رواج متعارف کروایا جارہا ہے جس سے نوجوان نسل اپنے بزرگوں کے اقدار کو پامال کرتے ہیں اور خود بھی مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے بڑوں کو بھی مشکلات کے اندر ڈال دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی شادیاں ہوچکی ہیں اور ہورہی ہیں کہ جب لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو ایک لمحہ بھی ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہوتے۔محض موبائل فون پر بات کرنے سے بات شادی تک پہنچ جاتی ہے والدین کی بے جا آزادی خاص طور پر بیٹوں کیلئے جس سے ان کی سوچ بھی باغیانہ ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ والدین کی بیٹیوں پر بے جا سخت پابندیاں بھی ان کو باغی کرتی ہیں۔ گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے جب وہ ناولوں اور ڈائجسٹوں کی دنیا میں کھو جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کی تلاش کرنے لگتی ہیں اور وہ وقت آنے پر ان کے ہی خواب انہیں باغی کرتے ہیں اور اسی وقت وہ والدین کے فیصلے سے انحراف کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ہمارا مذہب عورتوں کو پردے کا حکم دیتا ہے لیکن چونکہ اب مخلوط نظام تعلیم عام ہوچکا ہے لہٰذا لڑکے اور لڑکیوں کو براہ راست میل جول کو فروغ مل رہا ہے جس کے باعث نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دوستی کے نام پر انڈرسٹینڈنگ کرتے ہیں پھر اس انڈرسٹینڈنگ کو ”لومیرج“ میں ڈھالنے کے متمنی ہوتے ہیں۔
معاشرتی ترقی میں جہاں میڈیا اپنے بھرپور اور طاقتور اثرات کے ساتھ اثر انداز ہورہا ہے وہیں جدید ٹیکنالوجی فون اور انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک نے بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ مغرب سے جہاں ہم نے بہت سی اچھی چیزیں بھی درآمد کی ہیں اور ہماری نوجوان نسل نے ان اشیاءکو بہت جلدی اپنایا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سی ایسی خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں کہ جس کی وجہ سے نوجوانوں کو جنسی آزادی فراہم ہوئی ہے اور وہ اپنے مذہبی اقدار کو بھول گئے ہیں ۔
ان کیلئے ویلنٹائن ڈے منانا عید سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عید کے روز تو وہ سوئے رہتے ہیں مگر ویلنٹائن ڈے کے روز صبح سویرے اٹھتے ہیں اور پھولوں کے تبادلے کرتے ہیں۔ نوجوان اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں بڑوں کی رائے اور مشورے کو بھی شامل کرنا پسند نہیں کرتے جب نوجوان والدین کی پسند کی بجائے ذاتی پسند کو ترجیح دیتے ہیں تو اس سے کئی گھروں میں ناخوشگوار واقعات جنم لیتے ہیں۔
شائستہ نے اپنے قبیلے اور والدین سے بغاوت کی لیکن اس کے شوہر ہی نے اس کے ساتھ وفا نہ کی اورشوہرنے قبیلے والوں کے دبائو میں آکر اس کو طلاق دیدی۔ اس کے بعد شائستہ کو اپنے قبیلے والوں سے خطرہ تھا کہ وہ اس کو قتل نہ کردیں اس موت کے خوف سے نجات کیلئے اس نے میڈیا سے مدد مانگی۔ میڈیا میں اس کیس کی کوریج کی وجہ سے وہ موت سے بچ گئی لیکن موت سے بچنے کے باوجود اس کو پھر سے وہ عزت اور مقام حاصل نہ ہوسکا جس کو وہ کھوچکی ہے۔ والدین کی محبت سے بھی محروم ہوگئی اور شوہر کی محبت سے بھی۔
اسلام میں شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ ساری عمر کا معاملہ ہوتا ہے۔ اسلام میں بالغ مسلمان لڑکے اور لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کا اختیار ہے اور اس میں زبردستی کی گنجائش نہیں ہے۔
بخاری و مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے شادی کرنے میں 4چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔
1۔دولتمندی، 2۔ خاندان، 3۔خوبصورتی، 4۔دینداری لیکن تم دینداری کو ان سب چیزوں میں مقدم سمجھو۔
رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نکاح کی تکمیل بالغ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے مشروط ہے۔ اسلام میں لڑکی کی پسند کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی کے لڑکے کی پسند کو! اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے خود اپنی سہیلی کے ہاتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا تھا۔
بعض لڑکیوں نے کہا کہ شادی کی بات چیت اور رشتہ والدین کو ہی طے کرنا چاہیے لیکن اس میں لڑکی کی مرضی اور رائے کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ پنجاب یونیورسٹی کی ۔ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو خود اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے لڑکیاں پڑھ لکھ کر سمجھدار ہوجاتی ہیں۔ آپس میں انڈر سٹینڈنگ کے علاوہ والدین کی رضا بھی شامل ہوجائے تو بہت ہی اچھا ہوتا ہے اور عام طور پر لڑکیاں والدین کو قائل کرہی لیتی ہیں۔ اس طرح شادی سے پہلے جن مفروضات کا اندیشہ ہوتا ہے وہ بعد میں بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ والدین اور معاشرہ ان حقائق کو قبول کرتے ہوئے ایسی متوازن راہ اپنائے جو دونوں فریقین کیلئے قابل قبول ہو اور ایسے معاملات میں منفی اثرات سے بچتے ہوئے اسے مثبت راہ پر ڈال سکیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 467
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں