میں جن دنوں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا تو بنوڑ (ریاست پٹیالہ) کے قریب موضع جنگ پورہ میں ایک دوست کی دعوت پر آنکھوں کے آپریشن کرنے کیلئے وہاں گیا اور چند روز مقیم رہا۔ اس مقام پر ایک دوست پرائمری سکول کے ماسٹر ناہر سنگھ رہا کرتے تھے۔ یہ ماسٹر ناہر سنگھ بہت مضبوط‘ بہادر‘ مستعد اور وضعدار طبیعت کی شخصیت کے مالک تھے اور دوسروں کیلئے خود تکلیف اٹھانا ان کی فطرت میں داخل تھا۔ میرے جنگ پورہ سے چلے آنے کے بعد ماسٹر ناہر سنگھ سال میں ایک آدھ مرتبہ مجھ سے ملنے کیلئے ہمیشہ آتے رہے اور ان کی یہ وضعداری اب بھی قائم ہے۔
1947ءمیں جب فسادات شروع ہوئے تو اتفاق سے یہ دہلی میں موجود تھے اور جب چندروز یہاں مقیم رہے تو ایک دن انہوں نے کہا کہ یہ اپنے گاوں ضلع انبالہ میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اتنی جلدی کیا ہے فسادات ہورہے ہیں دہلی میں ہی رہو جب فسادات ختم ہوجائیں گے تو چلے جانا۔ مگر ماسٹر جی نے جوا ب دیا کہ نہیں جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے علاقہ کے اکالیوں کا ان کے پاس پیغام پہنچا ہے وہ وہاں کے مسلمانوں کو ختم کررہے ہیں اور ان کو بھی وہاں طلب کیا ہے تاکہ یہ بھی مسلمانوں کو قتل کرنے میں حصہ لیں۔ میں نے جب یہ سنا تو کانپ اٹھا اور ماسٹر جی سے بہت کہا کہ وہ قتل کی اس وبا میں حصہ نہ لیں۔ یہ سکھ ازم اور انسانی شرافت کے خلاف ہے مگر ماسٹر جی نہ مانے اور دہلی سے اپنے گاوں چلے گئے۔
ماسٹر ناہر سنگھ جب اپنے گاوں پہنچے تو وہاں کے علاقہ میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا۔ اکالیوں کی تلوار کو خون لگا ہوا تھا اور جہاں بھی کوئی مسلمان نظر آتا اس کو ختم کردیا جاتا۔ ماسٹر ناہر سنگھ اپنے گاوں پہنچنے کے بعد اگلے روز صبح ضروری حاجات سے فارغ ہونے کیلئے گاوں سے باہر (جیسا کہ دیہات میں دستور ہے) کھیتوں میں گئے تو وہاں پانی کی چھوٹی سی نہر (جو اس گاوں کے قریب تھی اور جس میں تین چار فٹ کے قریب پانی بہہ رہا تھا) میں ایک سر نظر آیا۔ ابھی سورج نہ نکلا تھا ماسٹر جی حیران کہ اس وقت کون شخص گردن نکالے کھڑا ہے۔ ماسڑ جی نے کنارہ پر کھڑے ہوکر اس شخص کو پوچھا کہ کون ہے۔ ماسٹر جی کے اس سوال پر جواب ملا کہ ”ماسٹر جی میں ہوں“ یہ آواز ماسٹر جی کے ایک مسلمان شاگرد کی تھی جسے ماسٹر جی کچھ عرصہ پہلے سکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ ماسٹر جی نے اس لڑکے کو نہر سے باہر آنے کیلئے کہا۔ لڑکا نہر سے باہر آگیا تو وہ کانپ رہا تھا اس نے بتایا کہ چونکہ مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے اس لیے وہ نہر میں کھڑا ہے۔ اس نے اپنا سر پانی سے باہر سانس لینے کیلئے نکالا ہوا تھا اور التجا کی کہ اس کو ہلاک نہ کیا جائے۔ یہ کیفیت دیکھ کر ماسٹر ناہر سنگھ کے ذہن میں انقلاب پیدا ہوگیا۔ بچہ کو یہ اپنے گھر لے آئے اور کپڑے پہنائے۔ گاوں کے لوگوں میں اس واقعہ سے ماسٹر ناہرسنگھ کیخلاف غم و غصہ کے جذبات پیدا ہوگئے کہ انہوں نے ایک مسلمان لڑکے کو پناہ دی ہے۔ ماسٹر ناہر سنگھ بہت بہادر اور شجاع ہیں۔ آپ کئی بار ڈاکووں کا مقابلہ کرچکے تھے اور خود بھی ڈاکہ کے الزام میں گرفتار ہوکر پٹیالہ جیل میں رہ چکے تھے آپ نے اپنی کرپان (تلوار) کو میان سے نکال لیا اور گاوں کے لوگوں کو للکار کر کہا کہ جو شخص اس بچہ پر ہاتھ اٹھائے گا اس تلوار سے اس کو ختم کردیا جائے گا اور اگر بچہ قتل ہوا تو گاوں کا ایک بھی شخص زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ ماسٹر ناہر سنگھ کا یہ چیلنج سن کر تمام لوگ خاموش ہوگئے۔ ماسٹر جی نے اس بچہ کو اپنے ساتھ لیا اور وہ اس کو ساتھ گاوں سے کافی فاصلہ پر اس کیمپ میں لے گئے جہاں کہ مسلمانوں کو حفاظت کیلئے رکھا جارہا تھا۔
ماسٹر ناہر سنگھ جب مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچے تو وہاں آپ نے دیکھا کہ مسلمان بہت مغموم ہین‘ ان کے عزیزواقارب قتل کردئیے گئے ان کے پاس نہ کھانے کو ہے نہ کوئی سامان اور عورتیں اور بچے ایک قیامت میں مبتلا ہیں اور اس منظر کو دیکھ کر ماسٹر ناہر سنگھ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ ہو آپ دیہات سے مسلمانوں کو نکال کر ان کو بچائیں گے چاہے ان کو اس راہ میں خود بھی ہلاک ہونا پڑے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت سے ہی دیہات کا دورہ شروع کیا اور جو بھی مسلمان ملتا اس کو نکال کر کیمپ میں پہنچا آتے۔ آپ نے اس طرح دو ہزار کے قریب مسلمانوں کو اکالیوں کے ہاتھوں سے بچا کر کیمپ میں پہنچایا۔ ماسٹر ناہر سنگھ کا بیان ہے کہ کیمپوں کہ یہ مسلمان جب پاکستان روانہ ہوئے تو ماسٹر ناہر سنگھ کے گلے مل کر زارو زار روتے اور ایک ضعیف اور بوڑھی مسلمان عورت کے آنسو نہ تھمے جب اس نے جدا ہوتے وقت ماسٹرجی کی پیشانی کو چوم لیا اور کہا ”بیٹا تم اگر نہ ہوتے تو آج ہم اس دنیا میں زندہ نہ بچ سکتے“ اس ضعیف خاتون کو کیا معلوم کہ پاکستان کیا ہے اور کہاں ہے۔ اس نے ماسٹرجی سے بہت کہا کہ ناہرسنگھ بھی اس قافلہ کے ساتھ چلیں اور یہ خاتون ان کو ہمیشہ اپنا بیٹا سمجھے گی مگر نہ تو ماسٹر جوہر سنگھ پاکستان جاسکتے تھے اور نہ یہ خاتون ہندوستان میں رہ سکتی تھی۔ یہ خاتون اور ماسٹر صاحب دونوں ہی آنسو بہاتے ہوئے علیحدہ ہوئے۔
ماسٹر ناہر سنگھ آج کل راجپورہ (ریاست پٹیالہ) میں رہتے ہیں اور اپنی وضع داری کو نبھانے کیلئے کبھی کبھی دہلی آتے ہیں۔ جب بھی آتے ہیں تو میں ان کی زبان سے ان حالات کو پھر سن لیا کرتا ہوں کیونکہ آپ کا مسلمانوں کو قتل کرنے کے ارادہ سے اپنے گاوں جانا اور شاگرد کو قابل رحم حالت میں دیکھ کر ان کے ذہن میں انقلاب پیدا ہونا ایسا واقعہ ہے جس کو بار بار سننے اور اس پر بار بار غور کرنے کو جی چاہتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں