ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے رات میری نیند کھلی تو میں بستر پر ہی ایک مختصر وظیفہ پڑھنے لگا۔ وظیفے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں بائیں کچھ سائے ہیں اور سانسوں کی آوازیں ہیں اور وہ سانسوں کی آوازیں وہ سائے کیا تھے‘ مجھے تھوڑی دیر میں خود احساس ہوگیا کہ یہ جنات ہیں جو رات کو میرے ساتھ تھے۔ اور میرے وظائف ذکر اور تسبیح کی وجہ سے یہ مجھے احساس دلا رہے ہیں کہ ہم بھی ہیں‘ میں نے آہستہ سے انہیں قریب کیا اور ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ کہنے لگے: ہم کچھ غریب نادار پردیسی اور فریادی لوگ ہیں جن کا ایک ظالم جن نے اپنے ظلم اور ستم کی وجہ سے گھر بار لٹا دیا ہمیں برباد کردیا‘ہمارا سب کچھ چھین لیا ہماری ایک بیٹی کو چھین کر زبردستی اس کی شادی اپنے بیٹے سے کردی جبکہ ہم ایسانہیں چاہتے تھے۔
بوڑھا جن میرے گھر تک کیسے پہنچا
پھر مجھے کہنے لگے کہ آپ کے فلاں جنات سے تعلقات ہیں اور جن بڑے جنات سے میرے تعلقات تھے اوران کےہاں میرا آنا جانا تھا‘ انہوں نےان سب کے ساتھ میرے رابطے گنوائے‘ حیرت ہوئی کہ ان کو کیسے علم ہوا؟ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بہت جگہ گئے اور انہوں نے اپنے مسائل کے حل کیلئے جگہ جگہ رابطے تلاش کیے‘ اس کی وجہ سے انہیں پتہ ہے کہ میرا کس کس سے رابطہ اور تعلق ہے اور آنا جاناہے‘ میں نے اپنا وظیفہ چھوڑ دیا کیونکہ دکھیارے غم کے مارے اور کسی کی خدمت میں سمجھتا ہوں کہ میرے وظیفے سے زیادہ اہم ہے‘ وظیفے کی قضا ہے‘ وہ نفلی عمل ہے‘ اور کسی دکھیارے کی خدمت انسان ہے یا جن‘ اس کے دکھ درد کو بانٹنا عین فرض بھی ہے عین عبادت بھی ہے‘ بس یہی سوچ تھی‘ میں ان کے ساتھ اٹھ کر چل پڑا‘ گھر سے باہر نکلا تو دیکھا اور جنات بھی میرے گھر کے باہر موجود تھے ‘ حیران ہوا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں کہنے لگے ہم بہت دن ہوگئے آپ کے گھر کے باہر ہیں فریادی بن کر آئے ہیں ہم ایک ہی خاندان ہیں ڈرتے ڈرتے ہم نے اپنے ماں باپ کو آپ کے بستر کے قریب بھیجا باقی ہم گھر کے باہر رہے‘ یہ دونوں بوڑھے آپ کے گھر کے اندر داخل ہوئے‘ گھر کے اندر رہنے والے حفاظتی جنات نے انہیں بہت روکا لیکن ان کے بڑھاپے اور ان کی مظلومیت پر ترس کھاتے ہوئے زیادہ روک رکاوٹ نہیں کی۔
مظلوم خاندان کی غمناک کیفیات
لہٰذا ہمارے والدین گھر کے اندر چلے گئے اورہم گھر کے باہر کھڑے ہیں اور وہ سب رونے دھونے لگ گئے بہت شور شرابہ بہت زیادہ درد ناک آوازیں غمناک کیفیات اور غم ناک کیفیات کی یہ حالت تھی کہ ان کے غم اور کیفیات سے مجھے خود رونا آگیا‘ اور میں پریشان‘میرے دل میں اچانک باورچی بابا کا خیال آیا بوڑھے باورچی بابا‘ باورچی بابا اس لیے کہتا ہوں کہ وہ کھانے پکانے کا کام کرتے ہیں صرف یہ نہیں ہر آنے والے کو کھانا پکانا اور کھانا دینا‘ان کی خدمت اور مشاغل میں شامل ہے اور اس کو اپنی عین عبادت سمجھتے ہیں اور عین سعادت سمجھتے ہیں۔
قبر میں سے سینکڑوں جنات برآمد
میں نے کہا آئیں چلتے ہیں‘ ہم چل پڑے ایک قبرستان میں پہنچے قبرستان کی بہت پرانی قبر کے قریب گئے‘ میں نے وہاں اپنا عمل کیا‘ تھوڑی دیر میں قبر پھٹی‘ قبر سے ایک بہت بڑے بزرگ‘ درویش نکلے‘ وہ اکیلے نہیں آئے ان کے ساتھ سینکڑوں اور جنات بھی آنا شروع ہوگئے‘ حتیٰ کہ ایک بہت بڑا مجمع‘ میں نے پوچھا‘ یہ حضرات کون ہیں؟ فرمایا ہماری قبور میں روحانی محافل‘ روحانی مجالس اور کائنات کے رازوں کا ایک نظام چلتا ہے اور وہ رازوں کا نظام کسی کو سمجھ نہیں آتا‘ اور وہ ایسا چلتا ہے کہ کوئی نہ سوچ سکتا ہے نہ گمان کرسکتا ہے‘ اور ہر بندہ ان رازوں میں نہ ہی داخل ہوسکتا ہے۔
ہم اس وقت کائنات کے آفاقی‘ روحانی اور غیبی لاہوتی مالاکوتی نظام کو سوچ رہے تھے کہ اچانک آپ آگئے اس لیے ہم سب باہر آگئے۔ اتنی ہی دیر میں باورچی بابا جن بھی تشریف لے آئے‘ میںنے انہیں پیغام پہنچایا تھا لہٰذا وہ بہت شفقت محبت اور پیار کرتے ہیں ان کے آنے سے ایک اچھی خاصی محفل اور ایک اچھا خاصا اجتماعی سماں بن گیا میں نے یہ فکر اور غم ان کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ اگر مہربانی کریں تو اس غریب کی فریاد اور دکھ کو دور کرسکتے ہیں پھر میں نے اس غریب خاندان کو ظالم جن کی داستان اور ظلم وستم کا سچا قصہ سنانے کیلئے آگے کیا۔ اس بوڑھا اور بوڑھی نے رو رو کر اپنی فریاد ایسی سنائی کہ وہ سارے بزرگ جو قبر سے نکلے تھے وہ بھی رو رہے تھے اور قبرستان کے جنات بھی جمع ہوگئے ان کے بھی آنسو اور سسکیاں خود میں بھی رو رہا تھا یہ باتیں سنتے سنتے باورچی بابا نے کہا میں آپ کا ساتھ دوں گا میں شاہ جنات تک آپ کو پہنچاؤں گا کیونکہ شاہ جنات میرے ہاتھ کے کھانے بہت پسند کرتے ہیں میرے ہاتھ کی پکی چیزوں کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرواتے ہیں لہٰذا یہ میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے ان شاء اللہ آپ کی فریاد ان تک صرف پہنچاؤں گا نہیں بلکہ ساتھ بھی دوں گا خود بیٹھوں گا شاہ جنات کو عرض کروں گا ظالم جن کو حاضر کریں اورسزا بھی دیں‘ آپ کی بیٹی واپس پہنچے اور آپ کی بیٹی آپ کو ملے۔
میں نے باورچی بابا جن سے عرض کیا ہم سب کو ابھی لے چلیں‘ میںنے ایک کام اور کیا کہ عبدالسلام کو بھی اس معاملے میں داخل کیا کیونکہ عبدالسلام کا شاہ جنات کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا محبت پیار تعلق اور الفت ہے اور عبدالسلام کو میں ذاتی جانتا ہوں میرا پرانا تعلق ہے۔
انوکھی کھجور جس کے سات ذائقے
یہ سب اس لئے کہ شاہ جنات کے ہاں ان بوڑھے ماں باپ اور مظلوم خاندان کی رسائی ہو اور سوفیصد انصاف ملے‘ یہ ساری ترتیب بنا کر ہم چل پڑے‘ جنات نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ہم بہت تیزی سے سفر کررہے تھے‘ اس مرتبہ جنات کی سواری نہ تھی‘ جنات نے مجھے خود اٹھالیا۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم بہت بڑے محل میں پہنچے‘ وہاں دربان تھے‘ ہم ٹھہرے‘ اطلاع پہلےپہنچ چکی تھی‘ ان دربانوں نے ہمیں دیکھا‘ محبت پیار سے ملے اور ہر بندے کو ایک کھجور پیش کی‘ میں نے اس کھجور کو عام کھجور سمجھا لیکن جب منہ میں ڈالی تو وہ کھجور ایک ایسی کھجور تھی جس کے بیک وقت سات ذائقے تھے کبھی پھلوں‘ کبھی مٹھائی‘ کبھی شہد ‘کبھی پھولوں کبھی کھجور‘ کبھی دودھ کا ذائقہ لیکن منہ میں کھجور کو ہلکا چبایا‘ گھمایا تو
نگلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اور جی چاہ رہا تھا کہ اس کھجور کو منہ میں ہی گھماتے رہیں اور جتنا منہ میں گھمائے جارہے تھے اس کے ذائقے بدلتے جارہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا دلچسپ پرلطف اور جاں فزا ذائقہ تھا ایسا کہ طبیعت چاہ رہی تھی کہ یہ ذائقے بڑھتے چلے جائیں۔
شاہ جنات کا محل اور جنت کے نقشے
تھوڑی ہی دیر میں شاہ جنات کی طرف سے دربان آئے اور ہمیں آگے چلنے کو کہا‘ وہ بہت محبت اور احترام سے لے کر چل رہے تھے ابھی تھوڑی ہی دیر چلے تھے آگے ایک بہت بڑا محل دیکھا پہلا محل سفید تھا اب یہ دوسرا محفل دیکھا تو یہ آسمانی رنگ کا نیلا تھا‘ یہ محل اس سے بھی بڑا تھا اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھا اس کی ہیبت اور عظمت دل میں گھر کرگئی تھی‘ اور اس کی ہیبت اور عظمت کے نقشے گمان اور خیال سے بالاتر ہیں دل میں خیال آیا شاید یہ جنت ہے کہا نہیں یہ جنت نہیں جنت کا نقشہ ہے جنت تو جنت ہی رہے گی وہ گمان خیال سے بالاتر ہے۔ یہی سوچیں تھیں کہ ہم محل کے اندر داخل ہوئے وہاں کے دربانوں نے بھرپور محبت اور استقبال کیا‘اب ہم بھی ساتھ ہیں قبرستان کی نیک روحیں‘ قبرستان کے جنات اور وہ مظلوم گھرانہ بھی دونوں بوڑھوں سمیت یہ بہت بڑا قافلہ ہے جو وہاں گیا‘ وہاں انہوں نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ایک بیج دیا‘ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کدو کا ان چھلا بیج ہے ایک ایک بیج دیا مجھے حیرانی ہوئی ایک ایک بیج سے کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ آپ اسے منہ میں ڈالیں ذائقہ بہت اچھا لگے گا لہٰذا ہم ایک ایک بیج کو منہ میں ڈال کر اس کے ذائقے کو تلاش کرتے رہے تھوڑی ہی دیر میں اس کا ذائقہ گھلا اور وہ بھی ایسے محسوس ہوا کہ اس کا ہر ذائقہ عجب تھا وہ بیج آہستہ آہستہ گھل رہاتھا جیسے ٹافی منہ میں آہستہ آہستہ گھلتی ہے اور منہ میںذائقے کی یہ کیفیت مسلسل بنتی رہی۔اس نیلے محل کے دربان ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے یہ کیا ہیں؟ سب خوش ہورہے تھے کیونکہ ہمیں اس ذائقے سے لذت مل رہی تھی اور ہم میں سے ہر فرد بہت زیادہ خوش تھا کہ اس نے یہ انوکھاذائقہ چکھا ۔وہ ہمیں دیکھ رہے تھے اور خوش ہورہے تھے ان کی خوشی سے احساس ہورہا تھا کہ انہوں نے ہمیں کوئی خاص چیز دی ہے جو ایسی خاص چیز جو خاص دوستوں کو دی جاتی ہے‘ وہ بیج گھل ہی نہیں رہا تھا اس کا ذائقہ اور اس کا مزہ اور اس کی لذت اور آخر کیسے گھلتا وہ نامعلوم کس دنیا کا بیج تھا‘ یہی سوچیں یہی ذائقے اور یہی لمحات تھے کہ انہوں نےہمیں آگے بڑھنے کی اجازت دی۔
آبشاریں‘ چشمے‘ موتی‘ یاقوت‘ مرجان‘ زمرد
ہم نے اگلا سفر طے کیا میرا خیال یہی تھا کہ بس اب سفر ہوگیا لیکن کہنے لگے نہیں‘ آپ اگلے محل میں داخل ہوں‘ ہر محل ایسا تھا کہ جیسے ایک نگری‘ ایک نظام‘ خدام‘ پھل‘ چیزیں‘ تحائف‘ آبشاریں‘ چشمے‘ مرمر‘ موتی‘ یاقوت‘ مرجان‘ زمرد‘ عقیق‘ زبرجد کیا بیان کیا جائے اور ہر محل میں ایک چہل پہل تھی‘ ہم اس سے آگے اگلے محل میں گئے تو اس سے آگے ایک محل تھا جو گلاب کے پھولوں کے رنگ جیسے گلابی رنگ کا تھا اور وہ اس سے زیادہ بڑا حیرت انگیز باکمال اور اس سے زیادہ بے مثال تھا‘ حیرت کی انتہا کہ محلات کا ایک سلسلہ تھا محلات کا ایک انوکھا نظام تھا اس محل کے اردگرد دربان دیکھے جنہوں نے کوئی خاص اسلحہ پکڑا ہوا تھا حالانکہ اس سے پہلے دوسرے محل میں دربانوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور انہوں نے ایک طاقتور وردی پہنی ہوئی تھی ان کے سروں پر خورد تھے اور ایک خاص ڈھال کی طرح ان کے سر بھی سینہ بھی ڈھکے ہوئے تھےجیسے ذرہیں ہوتی ہیں۔
محل کی خوبصورتی اس کے برج‘ اس کی دیواریں‘ اس کا حسن و جمال گمان خیال سے بالاتر‘ احساس ہورہا تھا کہ شاید ہم کسی انوکھی دنیا میں ہم کسی انوکھے نظام میں آگئے ہیں اور واقعی طلسماتی دنیا اور لاہوتی دنیا تھی جس دنیا کا ہمارے اس نظام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ وہ دنیا تھی جو ہماری دنیا کی اس ترتیب سے اور ان نقوش سے احساس اور گمان سے بالاترتھی اس کی کوئی نشانی اور کوئی مثال نہیں دے سکتے۔ اور وہ نشانی دے بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے ہی نہیں‘ جب وہاں پہنچے انہوں نے وہاں ایک چھیلا ہوا ہمیں بادام دیا‘ اور محبت دی‘ استقبال دیا‘ وہ بادام منہ میں رکھا اب بادام کے لیتے یقین ہوگیا تھا کہ یہ کوئی عام بادام نہیں ہوگا اس بادام کے ساتھ کوئی غیبی ذائقے لذتیں اور غیبی نظام ہوگا ہم نے وہ بادام منہ میں ڈالا تو اس نے سب سے پہلے بادام کا ذائقہ دیا جو بادام کا عمومی ذائقہ ہوتا ہے میں سمجھا کہ وہ بادام ہی تھا اس کے بعد اس بادام میں پھلوں کے ذائقے آنا شروع ہوگئے تھوڑی دیر میں محسوس ہوا کوئی رسیلہ رس بھرا سیب ہے ابھی سیب کا ذائقہ اس کی لذت اور چاشنی منہ سے جاہی نہیں رہی تھی کہ اچانک وہ ذائقہ بدل گیا ایسے ہوا کہ جیسے آم‘ پھر آڑو اسی طرح ذائقے بدلتے گئے اور لذتیں بدلتی گئیں اور حیرت اور کمالات کی دنیا کی انتہا نہ رہی۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں