حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپِ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی چیز ہنسی کا سبب ہوئی؟ فرمایا کہ میرے دو امتی اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایک اللہ سے کہتا ہے کہ یارب! اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے‘ میں بدلہ چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس (ظالم) سے فرماتے ہیں کہ اپنے ظلم کا بدلہ ادا کردو۔ ظالم جواب دیتا ہے یارب! اب میری کوئی نیکی باقی نہیں رہی کہ ظلم کے بدلے میں اسے دے دوں۔ تو وہ مظلوم کہتا ہے کہ اے اللہ! میرے گناہوں کا بوجھ اس پر لاد دے۔ یہ کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ ہوگئے اور فرمانے لگے کہ وہ بڑا ہی سخت دن ہوگا۔ لوگ اس بات کے حاجت مند ہوں گے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ کسی اور کے سر دھر دیں۔ اب اللہ تعالیٰ طالب انتقام سے فرمائے گا کہ نظر اٹھا کر جنت کی طرف دیکھ‘ وہ سر اٹھائے گا‘ جنت کی طرف دیکھے گا اور عرض کرے گا یارب! اس میں تو چاندی اور سونے کے محل ہیں‘ موتیوں کے بنے ہوئے ہیں یارب! یہ محل کس نبی اور کس صدیق اور شہید کے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائینگے جو اس کی قیمت ادا کرتا ہے اس کو دے دئیے جاتے ہیں۔ وہ کہے گا یارب! کون اس کی قیمت ادا کرسکتاہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائینگے کہ تو اس کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔ اب وہ عرض کرے گا یارب! کس طرح؟ اللہ جل شانہ ارشاد فرمائے گا: اس طرح کہ تو اپنے بھائی کو معاف کردے۔ وہ کہے گا یارب! میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائینگے: اب تم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جنت میں داخل ہوجاو۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ: ”اللہ سے ڈرو‘ آپس میں صلح قائم رکھو کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بھی مومنین کے درمیان آپس میں صلح کرانے والا ہے“۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں