بظاہر ڈائٹنگ کرنے والوں کو یہ سب کچھ ٹھیک لگتا ہے اوروہ اپنی اس کامیابی پرخوشی منا رہےہوتےہ یں کہ انہوں نےبہت کم عرصہ میں اپنے وزن کونمایاں طور پر کم کرلیا ہےلیکن اس کی وجہ سے اکثر متلی‘ چکراور تھکن جیسے عوارض لاحق رہتےہیں اور بعض حالات میں بیہوشی بھی طاری ہوجاتی ہے۔
ان گنت سلمنگ سنٹرز کا جنون
موٹاپا یقینی طور پر کوئی اچھی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ظاہری شخصیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے‘ خصوصاً خواتین پر تو فربہی ذرا بھی اچھی نہیں لگتی ہے اور اچھی بھلی شکل و صورت بھی محض بھدے خدوخال تلے دب کر رہ جاتی ہے۔ دور حاضر میں موٹاپے سے نجات کے لیے جدید ترین طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں اور ان گنت سلمنگ سنٹرز اس کی زندہ مثال ہیں مگریہ بات واضح طور پر محسوس کی جاتی رہی ہے کہ اکثر خواتین دبلے پن کے شوق میں اپنا وزن تو کم کرلیتی ہیں مگر ان پر اسمارٹنس کے بجائے ’’لاغری‘‘ واضح ہوجاتی ہے جس کی وجہ بہت ساری چیزوں سے گریز اور پرہیز ہوتا ہے لیکن یہ بات ہر ایک کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انسانی جسم کو جو غذائیت درکار ہوتی ہے اس کی فراہمی ازحد ضروری ہے۔
چکنائی سےمکمل پرہیز! عقلمندی ہرگز نہیں
دبلے پن کے شوق میں اپنی غذا سے چکنائی کو مکمل طور پر خارج کردینا کسی طرح بھی عقلمندی نہیں ہے کیونکہ جسم کو چکنائی کم یا مخصوص مقدار میں بہرحال درکار ہوتی ہے۔ روغنی غذاؤں پر چکنائی پر مشتمل اشیاء کے استعمال کا تناسب یقیناً کم ہونا چاہیے لیکن مکمل پرہیز کے سبب کئی طرح کے نقصانات کا خطرہ لاحق رہتا ہے کیونکہ اگر جسم میں چکنائی کا داخلہ بالکل ہی بند کردیا جائے گا تو وہ ضروری حیاتین جذب نہیں کرسکے گا۔ پرہیزی غذا کے حراروں میں سے 20 سے 30 فیصدی حرارے روغنی غذا سے ملیں تو بہتر ہے۔ ایک امریکی ماہر غذا کے مطابق ڈائٹنگ کے دوران کم از کم 20 فیصد حرارے چکنائی پر مشتمل غذاؤں سے ملنا ضروری ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یومیہ غذا میں چکنائی کی مقدار 34 سے لے کر 44 گرام تک ہونا چاہیے۔ اگر جسم کو اس سے کم مقدار میں چکنائی ملے گی تو ہوسکتا ہے کہ آپ جلد کی خشکی کا شکار ہوجائیں یا آپ کو بال جھڑنے کی شکایت لاحق ہوجائے جبکہ حیض کی بندش جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
دودھ کا ترک کردینا انتہائی غلط اقدام
ڈائٹنگ کرنے والوں کی اکثریت لاعلمی کی وجہ سے ابھی تک بہت ساری چیزوں سے پرہیز کرتی ہے البتہ گوشت کا استعمال بدستور جاری رکھا جاتا ہے جو کہ انسانی جسم کیلئے متوازن اور درست نہیں ہوتا ہے نیز اسے محفوظ بھی نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اس امر سے ناواقف ہوں گے کہ گوشت کھانے سے انہیں چکر، بدبودار سانس، متلی اور گردوں کے افعال میں خرابی جیسی تکالیف بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔ ایک ممتاز معالج کا کہنا ہے کہ ’’صرف گوشت استعمال کرنے والے خود کو حیاتین اور معدنی نمکیات سے بھی محروم کردیتے ہیں‘‘ گوشت کے علاوہ دودھ اور اس سے تیار کردہ اشیاء کا استعمال یکسر ترک کردینا بھی انتہائی غلط اقدام ہے اور مغربی معالجین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ڈائٹنگ کے دوران محض سلاد پر گزارہ کرنا غلط بلکہ نامناسب ہوتا ہے کیونکہ گوشت اور دودھ سے مکمل پرہیز کرنے والے غیرارادی طور پر بہت بڑی مقدار میں اہم غذائی اجزاء سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے جسم میں پروٹین کے علاوہ کیلشیم‘ فولاد اور جست کی کمی واقع ہوجاتی ہے نیز حیاتین بی 12 کی قلت کا سامنا بھی رہتا ہے اگر آپ کو گوشت پسند نہیں اور سبزیاں خوراک کا اہم حصہ ہیں تو ایسے افراد کیلئے لازمی ہے کہ وہ حیوانی پروٹین کے بجائے اپنی غذا میں دالیں‘ دودھ دہی‘ پھلیاں‘ گندم‘ چاول‘ مٹر‘ مونگ پھلی اور کیلشیم سے بھرے سنگتروں کا اضافہ کرلیں۔ کینو کا رس استعمال کریں ۔
آئس کریم سے پرہیز بہت بڑی غلطی
یاد رکھیں کہ اگر کوئی صرف سبزیوں پر صحت مندی کا دعویٰ کرسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ یہ انسان نہیں بلکہ خرگوش ہے جسے اللہ تعالیٰ نے صرف سبزیاں کھانے کے قابل بنایا ہے۔
ڈائٹنگ کرنے والے اپنی غذاؤں سے دودھ کو خارج کرنے کے ساتھ ہی دہی‘ پنیر اور آئس کریم سے بھی سخت پرہیز کرنے لگتے ہیں جو کہ بہت بڑی غلطی ہے۔ خواتین کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ یومیہ ایک ہزار ملی گرام کیلشیم کی مقدار کے حصول کی خاطر بغیر بالائی کا دودھ اور دہی ضرور استعمال کریں ورنہ ان کی ہڈیاں کمزور ہوجائیں گی اور بڑھاپے میں ہڈیوں کی بوسیدگی کا مرض نہیں بری طرح جکڑلے گا۔ ڈاکٹروں کے مطابق آٹھ اونس دودھ میں 90 حرارے ہوتے ہیں جبکہ بالائی کے بغیر ایک پیالی دہی سے 100 حرارے حاصل ہوسکتے ہیں اور یومیہ ایک پیالی دہی کے علاوہ ایک گلاس دودھ کا استعمال کیا جاتا رہے تو کیلشیم کی یومیہ درکار دو تہائی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جبکہ دیگر مقدار دوسری اشیاء پوری کردیتے ہیں یوں جسم دبلا تو رہتا ہے مگر اس پر نقاہت اور لاغری کے اثرات نمایاں نہیں ہوتے ہیں جس کا شکار ڈائٹنگ کرنے والے بیشتر افراد کو ہونا پڑتا ہے جو دبلے تو ہوجاتے ہیں مگر ان میں فعالیت کی کمی واضح ہوتی ہے اور وہ کسی کام کو انجام دیتے ہوئے جلد تھک جانے کے علاوہ نقاہت محسوس کرنے لگتے ہیں۔
غذائیت میںکمی آپ کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی
جسمانی اعتبار سے سرگرم رہنے والے مرد اور خواتین کو چاہیے کہ وہ کم حراروں پر مشتمل ایک یا دو اشیاء پر گزر اوقات کو عادت نہ بنائیں کیونکہ یہ انداز اختیار کرنا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک معروف معالج کے مطابق ایسا کرنے سے جسم کا نظام استحالہ یعنی میٹابولزم کسی حد تک سست پڑجاتا ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ کم حراروں کی وجہ سے جسم کو توانائی بچانے میں سرگرم ہوجاتا ہے تو دوسری جانب مسلسل فاقہ کشی کے باعث اس میں جمع شدہ چربی اورعضلات کو ٹھکانے لگانے پر مجبور ہوتا ہے۔ بظاہر ڈائٹنگ کرنے والوں کو یہ سب کچھ ٹھیک لگتا ہے اوروہ اپنی اس کامیابی پرخوشی منا رہےہوتےہیں کہ انہوں نےبہت کم عرصہ میں اپنے وزن کونمایاں طور پر کم کرلیا ہےلیکن اس کی وجہ سے اکثر متلی‘ چکراور تھکن جیسے عوارض لاحق رہتےہیں اور بعض حالات میں بیہوشی بھی طاری ہوجاتی ہے۔ وزن میں کمی کے لیے غذا میں تبدیلیاں لازمی امر ہے مگر اس بات کاجائزہ لیتے ہوئے کہ کہیں غذائیت کی کمی آپ کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی ہے۔ اس دوران ورزش کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھیں کیونکہ اس کے بغیر بھی فربہی سے نجات ممکن نہیں ہے۔ ورزش سے عضلات متحرک ہوکر فاضل چربی کو بخوبی ٹھکانے لگاتے ہیں اور کمزور بھی نہیں پڑتے۔ پیدل چلنا اور اس اعتبار سے ایک بہترین ورزش ہوتی ہے جبکہ محض چہل قدمی بھی اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یاد رکھیں کہ ڈائٹنگ کا مقصد دبلا ہونا ہے لاغر ہونا نہیں حراروں کی مقدار میں کمی ضرور کریں مگر جسم کوضروری غذائی اجزا سے محروم نہ ہونے دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں